حالت صحت میں ہمارے اجسام
اور اعضاء و جوارح اپنے اپنے وظائف بغیر کسی انحراف کے سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ ان نارمل
افعال وظائف کا سائنسی مطالعہ عضویات (Physiology) کہلاتا ہے۔ تاہم
امراض کی حالتوں میں ان افعال میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے بیماریوں کی عکاسی ہوتی
ہے۔ بیماریوں کی حالت میں وارد ہونے والے ان بدلے ہوئے جسمانی وظائف کا سائنسی مطالعہ
مرضیاتی عضویات کہلاتا ہے۔ تاہم ، نظر رہے کہ اجسام کے اعمال و وظائف میں کجی آجانے
سے ان کے خلیات ونسیجوں میں بھی فرق آنے لگتا ہے اور پھر یہ خلیاتی تبدیلیاں مختلف
کیمیائی تبدیلیوں پر منتج ہونے لگتی ہیں۔ چنانچہ مرضیاتی عضویات ان کیمیائی و نسیجی
تبدیلیوں کا بھی مطالعہ کرتی ہے۔
تو آئیے ایک سرسری سی
نظر ذیابیطس کی پیتھو فزیالوجی پر ڈال لیں لیکن اس سے پہلے تھوڑا سا ذکر اس لبلبہ کا
کہ جسے ذیا بیطیس کی پیتھالوجی میں خصوصی کردار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ لبلبہ ایک
مرکب غدہ ہے جو شکل و صورت میں لعاب دار غدودوں سے مشابہ ہے۔ اس کی لمبائی سات انچ
کے قریب ہے اور یہ اثنائے عشری آنت (Duodenum) سے تلی تک پھیلا ہوا ہے۔ لبلبہ تین حصوں پر
مشتمل ہے یعنی لبلبہ کا سر، اس کا درمیانی حصہ اور دم لبلبہ کا سروالا حصہ نسبتا کشادہ
ہے۔ یہ شکم کے دائیں حصے میں واقع ہے اور ڈیوڈ ینیم سے گھر اہوا ہے۔ لبلبہ کا درمیانی
حصہ معدہ کے عقب میں اور کمر کی جانب سے لمبر (Lumbar) کے پہلے مہرے کے
سامنے واقع ہے۔ لبلبہ کی دُم اس کے تنگ حصہ پر مشتمل ہے اور یہ حصہ تِلی کو چھوتا ہوا
دکھائی دیتا ہے۔
لبلبہ کئی طرح کے وظائف
سرانجام دیتا ہے۔ اس کے ایک عمل کے تحت کچھ اینزائم اور الیکٹرو لائٹس (Electrolytes) اعضائے ہاضمہ میں
پہنچ کر غذاؤں کے ہضم و تحلیل میں معاون ہوتے ہیں۔ تاہم ہمیں یہاں لبلبہ کے اس عمل
کو زیر بحث لانا ہے جو یہ بے نالی کے غدہ (Endocrine Gland) کے طور پر سرانجام
دیتا ہے اور جس کے تحت یہ انسولین اور گلوکاگون (Glucagon) تیار کرکے خون
میں داخل کرتا ہے۔
لبلبہ میں خلیات کے کچھ
خاص گروہ پائے جاتے ہی جنہیں آئی لیٹس آف لینگر ہانس (llets of Langarhans) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لینگر ہانس وہ محقق تھا جس نے لبلبہ کے
انسولین پیدا کرنے والے ان مقامات کی شناخت کی تھی ۔ ان آئی لیٹس میں ایلفا سیلز ،
بیٹا سیلز اور گیما سیلز کے جھرمٹ پائے جاتے ہیں اور تینوں انواع کے یہ سیلز متعدد
ہارمونز تیار کراتے ہیں۔ ایلفا سیلز میں گلوکاگون، بیٹا سیلز میں انسولین اور گیما
سیلز میں سوماٹو سٹائین (Somatostatin) تیار ہوتی ہے۔ سوماٹو سٹائین انسولین کے اخراج
میں باقاعدگی پیدا کرتی ہے جبکہ انسولین خون میں گلوکوز کی مقدار میں کمی لاتی ہے اور
گلو کا گون اس میں اضافہ کرتی ہے۔ ان ہارمونز سے گلوکوز میں کیونکر کمی یا زیادتی آتی
ہے ؟ اس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔
گلوکوز پر اثر انداز ہونے
والے محولہ بالا ہارمونز کی افزائش چونکہ لبلبہ میں ہوتی ہے۔ اس لیے اس عضو کے مطالعہ
کو خاص اہمیت حاصل ہے لیکن اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا لبلبہ انسولین
تو کافی مقدار میں تیار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے خون میں گلوکوز کی سطح کافی
بلند رہتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا سبب جسم میں انسولین کے خلاف پائی جانے والی مزاحمت
کو قرار دیا گیا ہے۔ تو جسم میں یہ مزاحمت کہاں پیدا ہوتی ہے؟ کہا جارہا ہے کہ انسولین
کے خلاف یہ مزاحمت زیادہ تر انسولین کے ریسپٹرز (Receptors) میں پائی جاتی
ہے۔ چنانچہ بنیادی طور پر انسولین کے ریسپٹرز کے نقائص اور گلوکاگون ، کارٹی سول (Cortisol) گروتھ ہارمونز
(Growth Hormones) فری فیٹی ایسڈز (Free Fatty Acids) اور کیٹون باڈیز (Ketone
Bodies) جیسے عوامل ہی
کو انسولین مزاحمت کا ذمہ دار قرا دیا جا رہا ہے۔ تاہم مذکور بالا اسباب وعلل کے جاننے
کے باوجود ہم ان اسباب پر ادویہ سے قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر چہ حکمران مکتب
طب میں ادویہ کی مدد سے لبلبہ سے انسولین کے اخراج میں اضافہ کر کے بڑھی ہوئی بلڈ شوگر
پر قابو پانے کی کوششیں جزوی طور پر کامیاب ثابت ہوئی ہیں، تا ہم انسولین کے خلاف مزاحت
میں کمی لانے کے لیے کچھ زیادہ کام نہیں کیا جا سکا۔ اب تک صرف Metforminی ایک
ایسی دوا سامنے لائی جاسکی ہے جو اس مزاحمت میں کچھ کمی لاتی ہے لیکن ایک تو اس دواکی
مکمل میکانیت کے متعلق پورا علم حاصل نہیں ہورہا، دوسرے اس کے استعمال سے جگر پر سخت
برے اثرات مرتب ہونے کی شہادتیں مل رہی ہیں لیکن اگر انسولین مزاحمت کی مرضیاتی عضویات
سے قطع نظر ان حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے کہ جو مریضوں میں انسولین مزاحمت میں
اضافہ کرتے ہیں تو اس سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ چونکہ اس طرح انسولین مزاحمت پیدا
کرنے والے احوال پر کنٹرول کرنا انسانی اختیار کے دائرہ میں آجاتا ہے اور پھر یہ مسلہ
سماجی کوششوں سے بھی حل کیا جا سکتا ہے اور ہومیو پیتھی اور دیگر طبعی طریقوں سے بھی
نہایت کامیابی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
لبلبہ کی مرضیاتی عضویات
کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ ایک صحت مند لبلبہ کے بیٹا سیلز سے انسولین کی افزائش
ضرورت کے عین مطابق تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص نشاستوں اور گلوکوز
پرمشتمل غذا لیتا ہے تو اس کا لبلبہ اس خوراک کی مقدار کی نسبت سے انسولین کا اخراج
شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں خون میں گلوکوز کے متجاوز ہونے کا امکان ختم ہو جاتا
ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے انسولین ہی گلوکوز کو خون سے اٹھا کر جسم کے مختلف
خلیوں تک پہنچاتی ہے۔ اس لیے انسولین کی کمی یا اس ہارمون کو قبول کرنے والے ریسپٹرز
کی عدم حساسیت ہی ذیا بیطس کو فروغ دینے والے دوا ہم اسباب ہیں
انسولین گلوکوز سے گلائی
کو جن تیار کرنے کے احکامات صادر کرنے والا ہارمون بھی ہے اور پیٹوں کے خلیات اور جگر
میں گلائی کو جن کا یہ ذخیرہ گلوکوز میں تبدیل ہو کر توانائی فراہم کرنے کا ایک اہم
ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ جب گلوکوز کا لیول کم ہوجاتا ہے تو انسولین کی ترسیل بھی
کم پڑ جاتی ہے اور پھر گلائی کو جن گلوکوز کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے۔
اگر انسولین کم ہو یا
جسمانی خلیات انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیں یا پھر انسولین ناقص قسم کی تیار
ہورہی ہو تو گلوکوز خلیوں میں مناسب طور پر جذب نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ مناسب طور پر
جگر یا پھٹوں میں بصورت گلائی کو جن محفوظ کی جاسکتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ بلڈ گلوکوز کا لیول بلندرہنے لگتا ہے۔ ایسی
حالت میں پروٹین کا انجذاب بھی صحیح طور پر نہیں ہوتا اور جب خون میں شکر کا اجتماع
رینل تھرش ہولڈ (Renal Thresh hold) سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو کچھ شکر پیشاب کے
راستے خارج ہونے لگتی ہے۔ نتیجتا پیشاب کا سرایتی دباؤ (Osmotic Pressure) بڑھنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں پیشاب زیادہ خارج ہوتا ہے اور جسم
سے پانی کا ضیاع ہونے لگتا ہے جس سے وزن میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ پھر جب خون کا حجم
کم ہو جاتا ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم کے خلیوں اور نسیجوں سے پانی خون
میں اترنے لگتا ہے۔ نتیجتا جسم پانی کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور پیاس بڑھنے لگتی
ہے۔ پھر ان تبدیلیوں کے سبب مریض کو کمزوری بھی لاحق ہو جاتی ہے اور اس کا وزن بھی
کم ہو جاتا ہے۔
یہ ہے ذیا بیطس کا وہ
مرضیاتی عضویاتی عمل کہ جس کے تحت دو چند علامات جنم لیتی ہیں کہ جنہیں ذیا بیطس کی
اہم ترین علامات قرار دیا گیا ہے۔ یہ علامات ہیں۔ ۔۔۔ پیشاب میں شکر کا اخراج ، پیشاب
کا کثرت سے آنا، پیاس میں اضافہ، کمزوری و اضمحلال اور کبھی وزن میں کی۔
مبحث
اس مضمون میں ذیا بیطس
کا مرضیاتی عضویات کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے لیکن واضح رہے کہ ذیا بیطس ایک
ہزار رُخی حالت ہے اور بعض اوقات آپ کو اس کے مریض میں وہ ممتاز علامات نہیں ملتیں
کہ جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ آپ کو ذیا بیطس کے ایسے مریض بھی ملیں گے کہ جن کا
وزن کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہوگا اور آپ ایسے مریض بھی پائیں گے کہ جن میں محولہ
بالا علامات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوگی تاہم خون کے ٹیسٹوں سے ان کی بڑھی ہوئی
بلڈ گلوکوز کا اظہار ہورہا ہوگا۔ خصوصا پری ڈا یا بٹیز کے عہد میں ( کہ جو کئی سالوں
پر محیط ہوتا ہے ) ذیا بیطس کے مریضوں کی علامات اس مرض کی بجائے میٹا بولک سینڈرم
(Metabolic Syndrom) کی دیگر علامات سے زیادہ مشابہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ
یہاں آپ کو ذیا بیطس کا علاج میٹا بولک سینڈرم کی علامات کے حوالہ سے کرنا پڑے گا تو
میٹا بولک سینڈرم کیا ہے؟ اس کی علامات کیا ہیں اور میٹا بولک سینڈرم ذیابیطس جیسے
امراض کو پیدا کرنے میں کیا کر دار ادا کرتا ہے؟ اس کا ذکر ہم کسی آئندہ نشست میں کریں
گے